• Web
  • Humsa
  • Videos
  • Forum
  • Q2A
rabia shakeel : meri dua hai K is bar imran khan app is mulk k hukmaran hun To: suman(sialkot) 10 years ago
maqsood : hi how r u. To: hamza(lahore) 10 years ago
alisyed : hi frinds 11 years ago
nasir : hi To: wajahat(karachi) 11 years ago
khadam hussain : aslamoalikum pakistan zinsabad To: facebook friends(all pakistan) 11 years ago
Asif Ali : Asalaam O Aliakum . To: Khurshed Ahmed(Kashmore) 11 years ago
khurshedahmed : are you fine To: afaque(kashmore) 11 years ago
mannan : i love all To: nain(arifwala) 11 years ago
Ubaid Raza : kya haal hai janab. To: Raza(Wah) 11 years ago
qaisa manzoor : jnab AoA to all 11 years ago
Atif : Pakistan Zinda bad To: Shehnaz(BAHAWALPUR) 11 years ago
khalid : kia website hai jahan per sab kuch To: sidra(wazraabad) 11 years ago
ALISHBA TAJ : ASSALAM O ELIKUM To: RUKIYA KHALA(JHUDO) 11 years ago
Waqas Hashmi : Hi Its Me Waqas Hashmi F4m Matli This Website Is Owsome And Kois Shak Nahi Humsa Jaise Koi Nahi To: Mansoor Baloch(Matli) 11 years ago
Gul faraz : this is very good web site where all those channels are avaiable which are not on other sites.Realy good. I want to do i..... 11 years ago
shahid bashir : Mein aap sab kay liye dua'go hon. 11 years ago
mansoor ahmad : very good streming 11 years ago
Dr.Hassan : WISH YOU HAPPY HEALTHY LIFE To: atif(karachi) 11 years ago
ishtiaque ahmed : best channel humsa live tv To: umair ahmed(k.g.muhammad) 11 years ago
Rizwan : Best Streaming Of Live Channels. Good Work Site Admin 11 years ago
تاریخ ہمیں معاف کردیگی
[ Editor ] 18-12-2012
Total Views:543
پچھلے دس برس یا اس سے زائد عرصے کے دوران دن بدن ترقی کرتی نئی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بدل دیں۔

آنے والی دہائیوں میں یہ سلسلہ مزید شدت ہی اختیار کرے گا۔ معلوماتی انقلاب کہلانے والا واقعات کا یہ سلسلہ جدید تاریخ میں صنعتی اور سائنسی انقلابوں سے کم فکر انگیز نہیں شمار کیا جائیگا۔

ایسی گہری جڑیں رکھنے والی معاشرتی تبدیلیوں کی فطرت میں ہے کہ انکے ایک حقیقت بننے کے بعد ہی انکی اہمیت کے بارے میں آگاہی عام ہوتی ہے۔یہ اس حقیقت کے برعکس ہے کہ موبائل فونز اور ٹیبلٹ وغیرہ کے تعارف کے بعد عام طرزِ عمل مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔

وقت اور خلاء کے معنی بھلے ہی مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہوں مگر ہم یہ بھول ہی چکے ہیں کہ کچھ عرصے پہلے تک سب کچھ کتنا مختلف تھا۔

پھر بھی چاہے ہم اس امر سے پوری طرح واقف نہیں مگر دیکھا جائے تو انسانی معاشرہ مستقل طور پر زیرِ تعمیر ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں معمولی حیثیت رکھنے والی مادی آسانیاں اور اس سے منسلک اہمیت اس سے پچھلے دور میں وہ مقام نہیں رکھتی تھیں۔

دوسرے الفا ظ میں، جسے بالاخر ذہنی، سیاسی اور معاشرتی طور پر عام سمجھ بوجھ قرار دیا جاتا ہے وہ صرف ایسے لوگوں کی کاوشوں سے ممکن ہوتی ہے جو لہروں کے خلاف تیرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

البرٹ آئنسٹائن کو آج جدید دور کا سب سے زیادہ اثر انگیز سائنسدان قرار دیا جا تاہے۔اسکے باوجود آئنسٹائن کے خیالات جس میں انکی مشہورِ زمانہ تھیوری آف ریلیٹیوٹی بھی شامل ہے منظرِ عام پر آتے ہی اس وقت کی نافذ شدہ سائنسی ترتیب کے خلاف ایک مکمل بغاوت کے آئینہ دار تھے۔ نیوٹن کی ترتیب شدہ طبیعات کے بنیادی اصولوں کو للکار کر ہی آئنسٹائن نے سائنسی معلومات کی حدوں کو وسیع کیا۔

بیسویں صدی کا کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی زیادہ تر مغربی معاشروں میں بلا تفریق حقِ رائے دہی کا تصور تسلیم شدہ نہیں تھا۔ کچھ عرصے پہلے تک عمومی طور پر عورتوں کا نا م نہاد درست معاشرتی مقام اور سیاہ فام نسلوں کو ورثے میں ملنے والی کمتری جیسے ثقافتی معیار اپنی جگہ سختی سے قائم تھے۔

مغربی معاشروں میں زیادہ تر عام لوگ اس بات کو معمولی سمجھتے ہیں کہ عورتیں اور سیا ہ فام لوگ ایک عام سفید فام انسان کے برابر کے شہری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بنیادی آزادیاں سب کو میسر ہوں ایسا ممکن بنانے کیلئے ایک عظیم جدوجہد کرنی پڑی تھی۔

یقیناً ہمارے جیسے ملکوں میں شہریت کے برابر کے حقوق ابھی تک ایک ادھورا خواب ہی ہیں۔ ریاست کی جانب سے حقوق رکھنے والے شہریوں کے طور پر پہچانا جانا تو ایک طرف، عورتوں کی ایک بڑی تعداد، نچلی ذات کے لوگ اور مذہب کے حوالے سے غیروں کو آج بھی ظالمانہ معاشرتی رسومات کا سامنا ہے۔

اس کے باوجود حالات بدل چکے ہیں اور مستقل بدل رہے ہیں۔ یہ محض اتفا ق نہیں ہے کہ اتنے سارے دولت مند رئیس بار بار یہ افسوس کرتے ہیں کہ جدید خیالات اور طرزِ زندگی کے عام ہونے سے پہلے حالات کتنے بہتر تھے۔

مثال کے طور پر روایتی زمیندار گھرانوں کو معاشی اور معاشرتی طور پر منحصر لوگوں کی بے جا غلامی حاصل تھی۔ اسکی بڑی وجہ مقصدیت سے بھرپورمعاشرتی تبدیلیاں ہیں جنہوں نے پیداوار کے تعلقات کو بدل دیا ہے مگر اسکے ساتھ ہی غلام طبقوں، ذاتوں اور انکے سیاسی و معاشرتی ساتھیوں کی جدوجہد بھی اسکی ایک بڑی وجہ ہے۔

میں جس امر پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسی جدوجہد ایک بہت بڑی مخالفت کے پیشِ نظر ہی ممکن ہے جس کے پیچھے نہ صرف معاشرتی تبدیلی سے نقصان اٹھانے والے رئیس ہوں بلکہ معاشرے کی ہر سطح پر موجود ایک بڑا طبقہ بھی ہو۔ یقینا، تبدیلی کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ عام طرزِ خیالات ہیں جن پر سوال اٹھانا ہمارے لئے نا قابلِ تصور ہے۔

آج زیادہ سے زیادہ پاکستانی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ جہاد کا وہ رومانوی سبق جو ہمیں 1970 کی دہائی کے آخر سے پڑھایا جا رہا ہے وہ ہماری مشترکہ گردن کے گرد لپٹا پھندہ ہے۔

ایسا اتفاقاً نہیں ہو گیا۔ ترقی پسند لوگوں نے ریاست کی جانب سے معاشرے پر مسلط کئے گئے ان نظریاتی کھونٹوں کے خلاف بے پناہ جدوجہد کی ہے جن کی ہمیں اکثر بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ جن خطرات کو کئی ہوشمند آوازیں چار دہائیوں سے نمایاں کرتی چلی آرہی ہیں آج وہ بے چین کردینے والی اور اکثر جان لیوا حقیقتیں بن چکی ہیں۔

ماضی کے مقابلے میں آج سب سے زیادہ مانا جاتا ہے کہ اسلام اور اردو سے منسلک یک طرفہ پاکستانی شناخت نے ہمیں متحد ہونے میں کوئی خاص مدد نہیں کی اور درحقیقت یہ ہمیں مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکی بھی دے رہی ہے (یہ کہنا ضروری نہیں کہ اس طرح کی صورتحال چالیس برس سے پہلے بھی پیش آچکی ہے)۔

کئی بہادر لوگ ہمارے ایک قسم سے زائد ورثے کو ہم سے قبول کروانے کیلئے ایک طویل عرصے تک کڑی سزا اور عوامی تذلیل کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

میں مدعے پر ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرناچاہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا ذکر کی گئی سوچ اور اس جیسے کئی غالبانہ خیالات کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاشرے میں پلنے والے طاقت کے ڈھانچے بھلے پہنچ سے باہر نہ رہے ہوں مگر انکی مکمل مرمت بھی نہیں ہوئی ہے۔

معاشرتی طبقہ جات، ذات، جنس اور دوسرے قسم کے دباؤ آج بھی مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔ فوج اور بیوروکریسی جیسے ریاستی آلے آج بھی طاقت کے سرچشمے ہیں۔ مذہبی ٹھیکیدار مذہبی آزادی کیلئے لڑنے والوں کو آج بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر پھر غاصبانہ خیالات کے خلاف جاری نہ ختم ہونے والی جنگ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ یہ حقیقت کہ مغربی معاشروں میں عورتوں اور سیاہ فام لوگوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں اس بات کی نشاندہی نہیں کہ وہاں رنگ ونسل کی تفریق اور مردانہ برتری جیسے تصورات کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

معاشرتی سفر کی کئی دہائیوں کے بعد بھی طبقاتی تقسیم ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے حالیہ معاشی ناکامی کی شکل میں سامنے آنے والی سرمایہ دارانہ نظا م کی تازہ ترین کمزوریوں کی بدولت پھر سے عوامی توجہ حاصل ہوچکی ہے۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ آج کے پاکستان میں غاصبانہ خیالا ت کے خلاف جنگ کرنے کیلئے موجود خلاء ماضی سے بہت زیادہ ہے۔ اس حقیقت کو قبول کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا بے حد ضروری ہے۔

ہمیشہ فوج کی چمچہ گیری کرنے والی عدالتیں آج خود کو آزاد ثابت کرنے پر مصر ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے گناہوں کا دفاع کرنے والے میڈیا کے نمائندے خود کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ میں صفِ اول کے کردار کو طور پر پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔ متحد ریاست کے نعرے لگانے والے سیاست دان آج باغیوں سے بات چیت کی وکالت کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کچھ زیادہ تر صرف جگہیں بدلنے کی رسم ہوسکتی ہے مگر یہ عوامی بحث ومباحثوں اور جذبات میں قابل ذکر تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔پاکستانی ریاست اور معاشرے کی بناوٹ میں ایسی مستقل تبدیلیاں ہونے سے پہلے کافی وقت درکار ہوگا جو کم از کم ہم میں سے کئی لوگ چاہتے ہیں۔

اسکے باوجود اگر ہم میں سے معقول تعداد کم استعمال شدہ رستے پر چلتے رہے تو ہم بالاخر منزل تک پہنچ ہی جائینگے۔ جدید دور کے شاید سب سے سخت جان انقلابی فیڈل کاسٹرو کے مطابق، تاریخ ہمیں معاف کردیگی۔

(ڈان نیوز)




About the Author: Editor
Visit 171 Other Articles by Editor >>
Comments
Add Comments
Name
Email *
Comment
Security Code *


 
مزید مضامین
سیاسی ڈرون اور اندھیرے Ú©Û’ مسافر سچ بیان کرنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے ،اگر اس ذمہ داری Ú©Ùˆ نبھانے میں میں معمولی سی بھی Ú†ÙˆÚ© ہوجائے تو سچ .... مزید تفصیل
قاضی حسین احمد Ú©ÛŒ زندگی قاضی حسین احمد 1938Ø¡ میں ضلع نوشہرہ (صوبہ خیبر پختون خوا) Ú©Û’ گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے اور اپنے دس .... مزید تفصیل
احتساب Ú©ÛŒ آزادی ایک بار پھر سرکاری افسران کا احتساب گذشتہ ہفتے سے خبروں کا موضوع ہے اور ایک بار پھر غلط وجوہات Ú©Û’ .... مزید تفصیل