• Web
  • Humsa
  • Videos
  • Forum
  • Q2A
rabia shakeel : meri dua hai K is bar imran khan app is mulk k hukmaran hun To: suman(sialkot) 10 years ago
maqsood : hi how r u. To: hamza(lahore) 10 years ago
alisyed : hi frinds 11 years ago
nasir : hi To: wajahat(karachi) 11 years ago
khadam hussain : aslamoalikum pakistan zinsabad To: facebook friends(all pakistan) 11 years ago
Asif Ali : Asalaam O Aliakum . To: Khurshed Ahmed(Kashmore) 11 years ago
khurshedahmed : are you fine To: afaque(kashmore) 11 years ago
mannan : i love all To: nain(arifwala) 11 years ago
Ubaid Raza : kya haal hai janab. To: Raza(Wah) 11 years ago
qaisa manzoor : jnab AoA to all 11 years ago
Atif : Pakistan Zinda bad To: Shehnaz(BAHAWALPUR) 11 years ago
khalid : kia website hai jahan per sab kuch To: sidra(wazraabad) 11 years ago
ALISHBA TAJ : ASSALAM O ELIKUM To: RUKIYA KHALA(JHUDO) 11 years ago
Waqas Hashmi : Hi Its Me Waqas Hashmi F4m Matli This Website Is Owsome And Kois Shak Nahi Humsa Jaise Koi Nahi To: Mansoor Baloch(Matli) 11 years ago
Gul faraz : this is very good web site where all those channels are avaiable which are not on other sites.Realy good. I want to do i..... 11 years ago
shahid bashir : Mein aap sab kay liye dua'go hon. 11 years ago
mansoor ahmad : very good streming 11 years ago
Dr.Hassan : WISH YOU HAPPY HEALTHY LIFE To: atif(karachi) 11 years ago
ishtiaque ahmed : best channel humsa live tv To: umair ahmed(k.g.muhammad) 11 years ago
Rizwan : Best Streaming Of Live Channels. Good Work Site Admin 11 years ago
مرزا غالب کا دو سو پندرھواں یوم پیدائش
[ imran ali ] 27-12-2012
Total Views:527
غالب کا اپنے بارے میں دعویٰ تھا کہ

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

اور یہ دعویٰ ایسا کچھ غلط بھی نہیں تھا، اس لیے کہ غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کردینے کے فن پر کمال حاصل تھا۔

غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں:غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔

عبدالرحمن بجنوری نے کہا تھا کہ: ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب۔

غالب نے اپنے دور میں روایت پرستانہ انداز فکر پر اپنے اشعار کے ذریعے شدید ضربیں لگائیں۔

اول تو ان کا دور نہایت منتشر اور غیر مستحکم تھا، دوسرے انہوں نے اپنے دور کی شعوری سطح سے بہت بلند اور اعلیٰ سطح کے سوالات اُٹھائے تھے، اس لیے انہیں اپنے دور میں وہ توجہ حاصل نہ ہوسکی، جو ان کا حق بنتا تھا۔

غالب نے جب شعور سنبھالا تو دیکھا کہ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی ہے اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہیں۔

یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کے شعور میں تشکک پسندی کو خاصی تقویت ملی۔ جس کا اظہار گاہے بگاہے ان کے اشعار کے ذریعے ہوتا رہا۔

مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھاہے

غالب کے اشعار پڑھ کر بارہا یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی خوشی اور غم زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور زندگی کو بہر صورت قابلِ قدر سمجھنا چاہئیے۔ اس نکتے کی وضاحت غالب نے اپنے بعض خطوط میں بھی کی ہے۔

غموں کی شدت سے بچنے کے لیے غالب نے یہ راہ نکالی ہے کہ آدمی رند مشربی اور آزادی اختیار کر لے، تاکہ ان کیفیات سے متاثر ہونے کے بجائے ان کو سمجھنے کی کوشش کرسکے۔ مثال کے طور پر غالب کہتے ہیں

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی

اسی رندانہ مزاجی کا نتیجہ تھا کہ عملی زندگی میں غالب خوش باش انسان تھے۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے انہیں حیوان ِ ظریف کا لقب دیا تھا۔

اسی آزاد مزاجی نے انہیں اس قابل بنایا تھا کہ وہ انتہائی کٹھن حالات میں بھی زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے، وہ طنز و مزاح کے انداز میں ایسے ایسے سوالات اُٹھاتے ہیں کہ جن کے جوابات پر پورا کا پورا دفتر رقم کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

غالب نے فارسی زبان میں بھی اشعار کہے ہیں لیکن اردو شاعری کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ آج انڈیا میں دیوان غالب کی دیوناگری رسم الخط میں اشاعت اردو رسم الخط میں اشاعت کی تعداد سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔

غالب کی آزاد منشی، رندانہ مزاجی اور جدید تشبیہات و تراکیب کے برمحل استعمال نے ان کے طرز سخن کو ایک ایسا دوام بخشا کہ آج بھی ان کے اشعار میں شگفتگی کا احساس موجزن نظر آتا ہے۔

بقول رشید احمد صدیقی: مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا، تو میں بے تکلف یہ تین نام لوں گا غالب، اردو اور تاج محل۔

غالب اپنی زندگی کے آخری دور میں سخت کسمپرسی کا شکار رہے اور انہی حالات میں ان کا انتقال ہوا۔

یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ڈان نیوز


About the Author: imran ali
Visit 4 Other Articles by imran ali >>
Comments
Add Comments
Name
Email *
Comment
Security Code *


 
مزید مضامین